معارف الحدیث
کتاب: کتاب الایمان
باب: اسلام ، ایمان اور احسان  (حدیث جبرئیل)
حدیث نمبر: 2



ترجمہ:

حضرت عمر بن الخطابؓ سے روایت ہے کہ ہم ایک دن رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک ایک شخص سامنے سے نمودار ہوا ، جس کے کپڑے نہایت سفید اور بال بہت ہی زیادہ سیاہ تھے ۔ اور اُس شخص پر سفر کا کوئی اثر بھی معلوم نہیں ہوتا تھا  اور اسی کے ساتھ یہ بات بھی تھی کہ ہم میں سے کوئی شخص اس نو وارد کو پہچانتا نہ تھا یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے آ کر دو زانو اس طرح بیٹھ گیا کہ اپنے گھٹنے آنحضرت کے گھٹنوں سے ملا دئیے ، اور اپنے ہاتھ حضور کی رانوں پر رکھ دئیے ار کہا اے محمد! مجھے بتلائیے کہ “اسلام” کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا “اسلام” یہ ہے  تم یہ شہادت ادا کرو کہ “اللہ” کے سوا کوئی “الہ”  نہیں اور محمد اس کے رسول ہیں ، اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو ، اور ماہ رمضان کے روزے رکھو ، اور اگر حج بیتُ اللہ کی تم استطاعت رکھتے ہو تو حج کرو ، اس نو وارد سائل نے آپ کا یہ جواب سن کر کہا ، آپ نے سچ کہا ۔ راوئ حدیث حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ ہم کو اس پر تعجب ہوا کہ یہ شخص پوچھتا بھی اور پھر خود تصدیق و تصویب بھی کرتا جاتا ہے ، اس کے بعد اس شخص نے عرض کیا اب مجھے بتلائیے کہ “ایمان” کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا ایمان یہ ہے کہ تم اللہ کو اور اُس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور یوم آخر یعنی روزِ قیامت کو حق جانو اور حق مانو اور ہر خیر و شر کی تقدیر کو بھی حق جانو اور حق مانو ، اس نے کہا ، آپ نے سچ کہا ۔ اس کے بعد اس شخص نے عرض کیا ، مجھے بتلائیے کہ احسان کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا احسان یہ ہے کہ اللہ کی عبادت و بندگی تم اس طرح کرو گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو ، کیوں کہ اگرچہ تماس کو نہیں دیکھتے ہو پر وہ تو تم کو دیکھتا ہی ہے ، پھر اُس شخص نے عرض کیا مجھے قیامت کی بابت بتلائیے آپ نے فرمایا کہ جس سے یہ سوال کیا جا رہا ہے وہ اس کو سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا ۔ پھر اس نے عرض کیا تو مجھے اس کی کچھ نشانیاں ہی بتلائیے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا لونڈی اپنی مالکہ اور آقا جو جنے گی ، تم دیکھو گے کہ جن کے پاؤں میں جوتا اور تن پر کپڑا نہیں ہے ، اور جو تہی دست اور بکریاں چرانے والے ہیں وہ بڑی بڑی عمارتیں بنانے لگیں گے اور اس میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کریں گے ، حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ یہ باتیں کر کے یہ نو وارد شخص چلا گیا ، پھر مجھے کچھ عرصہ گزر گیا ، تو حضور ﷺ نے مجھ سے فرمایا ، اے عمر! کیا تمہیں پتہ ہے کہ وہ سوال کرنے والا شخص کون تھا ؟ میں نے عرض کیا ، اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں ، آپ نے فرمایا کہ وہ جبرئیل تھے ، تمہاری اس مجلس میں 
اس لیے آئے تھے کہ تم لوگوں کو تمہارا دین سکھا دیں ۔

(یہ حدیث صحیح مسلم کی ہے اور صحیح بخاری و مسلم میں یہی واقعہ حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت سے بھی مروی ہے)